حسرت ان غنچوں پرہے AHSAN AZIZ (BS MASS COMMUNICATION)

وہ کلیاں جو کھلنے کی عمر میں مرجھا جاتی ہے۔ وہ پھول جو کھلنے سے پہلے مسل دیے جاتے ہیں۔۔۔ آئیے آج  ان کے گناہ گارتلاش کرتے ہیں۔ رانی پور کی فاطمہ ہو یا مظفرگڑھ کی زہرا شاہ۔۔۔ سرگودھا کی رضوانہ ہویا مرید کے سے اقبال مسیح۔۔۔ کردار الگ الگ ہیں لیکن کہانیاں  سب کی ایک جیسی ہیں۔ ان کہانیوں میں غربت ،بیچارگی اور معاشرے کی بے حسی نمایاں ہے۔

31مئی 2020 کو بیگم اختر رخسانہ ہسپتال میں ایک بچی کو لایا جاتا ہے ۔جس کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔جس کے بازو اور ٹانگوں پر کٹ لگے ہوئے تھے۔ جس کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جاں برنا ہو سکی اور اس زندگی کی گھٹن بھری قید سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو گئی۔یہ 8سالہ زہرہ  شاہ کی کہانی ہے۔۔۔جو غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مظفر گڑھ سے راولپنڈی چار پیسے کمانے آئی تھی۔ سال2023 میں کہانی یہی تھی، کردار بدل گئے تھے۔ اس بار مظفر گڑھ کی زہرہ شاہ کی جگہ سرگودھا کی 14 سالہ رضوانہ تھی۔۔۔ جو اسلام آباد میں ایک جج کے گھر پر بطور ملازمہ کام کرنے آئی تھی۔سندھ پر نظر دوڑائی تو فاطمہ فریروکی کہانی سامنے  آئی جس کو قتل کرنے کے بعد گھر والوں کو کہا گیا  کہ آپ کی بیٹی مر گئی ہے۔اس کو لے جائیں۔۔۔بچی کو دفنا دیا گیا۔۔۔ لیکن جرم چھپتا نہیں۔ پتہ چلا بچی پر تشدد ہوا ہے ،قبر کشائی ہوئی، پوسٹ مارٹم ہوا اور ثابت ہو گیا کہ بچی کو قتل کیا گیا ہے۔

                یہ کہانیاں صرف آج کی نہیں ہیں۔ آپ 40 سال پیچھے چلے جائیں۔ مریدکے سے تعلق رکھنے والے سیف مسیح کو اپنے بیٹے کی شادی کے لیے رقم کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب کہیں سے رقم کا انتظام نہیں ہو پاتا تو وہ ایک ٹھیکیدار سے چھ سو روپے قرض لیتا ہے اور اپنے چار سالہ بیٹے اقبال مسیح کو اس کی فیکٹری میں مزدوری کرنے کے لیے بھیج دیتا ہے۔ طے یہ پایا کہ ایک سال تک اقبال مسیح کام سیکھے گا اور اس کے بعد روزانہ سے ایک روپیہ مزدوری دی جائے گی۔ چھ سال تک اقبال اس فیکٹری میں کام کرتا رہا، مالک سے مار بھی کھاتا رہا، بھوک بھی برداشت کی۔۔۔کیونکہ اسے اپنے باپ کا قرض چکا نا تھا۔ قرض بھاری سود پہ لے گیا تھا۔ جس کی رقم بڑھ کر 13 ہزار روپے ہو چکی تھی۔آخر ایک دن اقبال  فیکٹری سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا اور ایک سکول میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے پاکستان میں چائلڈلیبر کے خلاف آواز اٹھائی جس پر اسے کئی بین الاقوامی ایوارڈ بھی ملے۔ لیکن 16 اپریل 1995 میں گولی مار کر اسے  ہمیشہ کے لیے خاموش کروا  دیا گیا۔

                سوال یہ ہے کہ کیا  زہرہ کا مجرم صرف حسن صدیقی ہے جس کے گھر پر وہ کام کرتی تھی؟ کیا فاطمہ کو مجرم رانی پور کا وہ پیر ہے؟ اور کیا اقبال کو اس کے ٹھیکیدار نے مارا ؟کیا ہمارا انصاف کا نظام، ہماری حکومتیں، ہمارے صاحب اقتدار  لوگ اور ہمارا معاشرہ سب کے سب اس جرم میں شامل نہیں ہیں؟ حضرت عمر فاروق( رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا تھا کہ میری سلطنت میں ایک کتا بھی  پیاسا مرتا ہے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر ہوگی۔تو کیا فاطمہ قیامت کے دن وقت کے حکمرانوں سے نہیں پوچھے گی کہ میں غربت کے ہاتھوں ماری گئی ۔۔۔آپ نے میرے لیے کیا کیا؟ اگر اقبال مسیح بول پڑا کہ میرا قاتل میرا معاشرہ اور اس کا نظام ہے تو پھر کیا ہوگا؟

                پاکستان ایمپلائمنٹ اف چلڈرن ایکٹ 1991 کے تحت 14 سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری کروانا غیر قانونی ہے۔ اس کے علاوہ 2020 میں ایک ترمیم کے تحت کم عمر بچوں کی گھریلو ملازمت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تاکہ چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہو اور بچوں کی تعلیم اور تربیت پر کام کیا جا سکے۔ سوسائٹی فار دا پروٹیکشن آف رائٹس اف دا چائلڈ(SPARC) کے نام سے ایک این جی او بھی چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہے لیکن جب ہم مختلف رپورٹیں اٹھا کر دیکھتے ہیں تو آج بھی لاکھوں بچے مزدوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

                ایسا کیوں ہے کہ ہم قانون پر عمل درامد کرانے میں ناکام ہیں؟ وہ کون لوگ ہیں جو آئین اور قانون سے بالاتر  نظر آتے ہیں۔ ہمارا عدل و انصاف کا نظام اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ طاقتور جانتا ہے، اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں انصاف کا انتظار کرتے کرتے زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخوا ست ہے جو پانچ ستمبر کو سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہو گئی ہے۔ حالانکہ5 فروری 2023 کو  پرویز مشرف کا انتقال ہو چکا ہے ۔قانون پر عمل درآمد کرانے کے لیے ضروری ہے کہ انصاف کی فراہمی بلکہ بروقت فراہمی کو یقینی بنایا جائے  اور طاقتور کو قانون کے نیچے لایا جائے۔

 ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے لیکن شاید ہماری ریاست سوتیلی ماں کے جیسی ہے۔ ورنہ کوئی ماں  یوں اپنے بچوں کے مرنے پہ خاموش کیسے رہ سکتی ہے؟شاید مسئلہ ہماری حکومتوں کی ترجیحات کا ہے۔ یہاں سب دیہاڑی لگانے ہیں۔ اپنی دیہاڑی لگائی اور چلتے بنے ۔چائلڈ لیبر کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے اور اور غربت کو ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہاں ہر حکومت صرف اپنے پانچ سال کا سوچتی ہے ۔اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنی سوچ  پانچ سال سے آگے بڑھانی ہوگی۔

                بطور معاشرہ  ہم بھی کہیں نہ کہیں اس جرم میں سزا وار ٹھہرتے ہیں۔ ہم اس طرح کی کہانیاں پڑھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔جب تک آگ  ہمارے گھر تک نہیں پہنچتی،  ہم دوسروں کے گھروں میں لگی آگ  کا  تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔۔۔ہماری بے حسی ہمیں لے ڈوبے گی۔۔۔

احسن عزیز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top